یری باتوں میں عجب دیکھی ہے تاثیر، فقیر
اے مرے ذہن میں آئے ہوئے دل گیر فقیر
۔
آ کسی روز اسے بھی تو کبھی چیر، فقیر
دل کے تہہ خانے میں رکھی ہوئی تصویر، فقیر
۔
مجھ شہنشاہ کی زنبیل پرانی ہے مگر
آتے رہتے ہیں مرے پاس کئی پیر فقیر
۔
ان فقیروں سے نبھانا بھی بہت مشکل ہے
یوں بھی ہوتا ہے کہ لکھ دیتے ہیں تقدیر فقیر
۔
آ مرے ساتھ بیاباں کی طرف چلتے ہیں
کون سا غم ہے ترے پاؤں کی زنجیر، فقیر
۔
اے مرے وہم مجھے چھوڑ کہ میں سن تو سکوں
دل کے دوراہے پہ کرتا ہے جو تقریر فقیر
۔
آو سنتے ہیں فقیروں سے کہانی ان کی
اپنی باتوں میں چھپا رکھتے ہیں تدبیر فقیر
۔
بھیڑئے کھا نے لگیں گے مجھے اس بستی میں
تو نے آنے میں اگر کی کوئی تاخیر فقیر
۔
دے مجھے عشق کا اک درس مگر پہلا درس
کس طرح ہوتی ہے کردار کی تعمیر فقیر
مہ جبینوں کی اداؤں سے الجھ بیٹھاہوں
اس کا مطلب ہے بلاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
بابِ تاثیر سے ناکام پلٹ آئی ہیں
اسلئے اپنی دعاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
تیری دہلیز پہ جھکنے کا سوال آیا تھا
میں زمانے کی اناؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
جو مسافر کیلئے باعثِ تسکین نہیں
ایسے اشجار کی چھاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
جو غریبوں کا دیا پھونک کے تھم جاتی ہیں
ایسی کم ظرف هواؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
عرش والے میری توقیر سلامت رکھنا
فرش کے سارے خداؤں سےالجھ بیٹھا ہوں
ايک كم ظرف کی بے ربط جفا كی
خاطرشہر والوں كی وفاؤں سے الجھ بیٹھا ہوں
یک منظر ' پَس ِ منظر بھی ہے موجُود کہِیں
میری آنکھوں میں سَمُندر بھی ہے موجُود کہِیں
یُوں ہی دَھمّال نہیں ڈالتا رہتا ہُوں مَیں
مُجھ میں اِک مَست قلندر بھی ہے موجُود کہِیں
پڑھ پڑھ عالم فاضل ہویا
کدے اپنڑے آپ نوں پڑھیا ای نہیں
جا جا وڑ دا مسجداں مندراں اندر
کدے من اپنے وچ و ڑ یا ای نہیں
ایویں روز شیطان نال لڑدا
کدی نفس اپنڑے نال لڑیا ای نہیں
بلھے شاہ اسماننی اڈدیاں پھڑدا ایں
جیہڑا گھر بیٹھا اونوں پڑیا ای نہیں
کوئی وظیفہ مجھے بھی بتا ' مِرے درویش !
تجھے ہوئی ہے فقیری عطا 'مِرے درویش !
مری خطا تو بس اتنی ہے اس تعلّق میں
یہی کہ ہونی کو ہونے دیا ' مِرے درویش !
ہر ایک سانس جُڑی ہے تری رضا کے ساتھ
تو کیا یہی ہے مکمّل وفا ؟ مِرے درویش !
تُو زندگی کا ستارہ بھی ' استعارہ بھی
مِرے لیے ہے تُو سورج نما ' مِرے درویش !
یہ تیرا عشق مہَکتا ہے رات دن مجھ میں
کہ اور کچھ نہیں مجھ میں نیا ' مِرے درویش !
تمہارے دھیان کی خوش بُو سے نیند ٹوٹ گئی
تو پھر یہی تھی مہَک جا بَہ جا ' مِرے درویش !
کہ اب وجود سے، موجود سے نہیں ہے غرض
ہے لا وجود کی مجھ میں صدا ' مِرے درویش !