آج کی اچھی بات

User avatar
Papu
Moderator
Moderator
Posts: 8286
Joined: 19 Jun 2013, 5:51 pm
Been thanked: 38 times

Re: آج کی اچھی بات

Post by Papu »

ایک بزرگ تھے.. ملک میں قحط پڑا ھوا تھا ' خلقت بھوک سے مر رھی تھی.. ایک روز یہ بزرگ اس خیال سے کچھ خریدنے بازار جا رھے تھے کہ نہ معلوم بعد میں یہ بھی نہ ملے..
بازار میں انھوں نے ایک غلام کو دیکھا جو ھنستا کھیلتا لوگوں سے مزاق کر رھا تھا.. بزرگ ان حالات میں غلام کی حرکات دیکھ کر جلال میں آ گئے.. غلام کو سخت سست کہا کہ لوگ مر رھے ھیں اور تجھے مسخریاں سوجھ رھی ھیں..
غلام نے بزرگ سے کہا.. " آپ اللہ والے لگتے ھیں.. کیا آپ کو نہیں پتا میں کون ھوں..؟ "
بزرگ بولے.. " تو کون ھے..؟ "
غلام نے جواب دیا.. " میں فلاں رئیس کا غلام ھوں جس کے لنگر سے درجنوں لوگ روزانہ کھانا کھاتے ھیں.. کیا آپ سمجھتے ھیں کہ جو غیروں کا ' اس قحط سالی میں پیٹ بھر رھا ھے وہ اپنے غلام کو بھوکا مرنے دے گا؟؟؟ جائیں.. آپ اپنا کام کریں.. آپ کو ایسی باتیں زیب نہیں دیتی.. "
بزرگ نے غلام کی بات سنی اور سجدے میں گر گئے.. بولے..
" یا اللہ ! مجھ سے تو یہ ان پڑھ غلام بازی لے گیا.. اسے اپنے آقا پر اتنا بھروسہ ھے کہ کوئی غم اسے غم نہیں لگتا اور میں جو تیری غلامی کا دم بھرتا ھوں یہ مانتے ھوئے کہ تو مالک الملک اور ذولجلال ولااکرام ھے اور تمام کائنات کا خالق اور رازق ھے میں کتنا کم ظرف ھوں کہ حالات کا اثر لے کر نا امید ھو گیا ھوں..
بے شک میں گناہ گار ھوں اور تجھ سے تیری رحمت مانگتا ھوں اور اپنے گناھوں کے معافی مانگتا ھوں
..!! "
User avatar
Papu
Moderator
Moderator
Posts: 8286
Joined: 19 Jun 2013, 5:51 pm
Been thanked: 38 times

Re: آج کی اچھی بات

Post by Papu »

ہمارے دفتری کمرے میں ایک جائے نماز ہر وقت بچھی رہتی ہے۔
آس پاس کے دوسرے کمروں کے دفتری ساتھیوں کی اگر کبھی باجماعت نماز رہ جائے تو وہ یہیں پر نماز پڑھتے ہیں۔
میں نے دیکھا کہ اکثر ساتھی آتے،
نماز پڑھتے اور اٹھنے سے پہلےجائے نماز کو ایک کونے سے موڑ دیتے ہیں۔
اور ایسا کرنے والے عالم،
غیر عالم سب ہی ہیں،
میں نے کئی بار اُن سے پوچھا کہ
"وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟؟؟؟؟؟"
تو اکثر غیر عالم ساتھیوں نے وہی جواب دیا جو ہم اپنی نانیوں،
دادیوں سے سنتے آئے ہیں کہ
"جناب!
اگر کونہ نہ موڑو تو شیطان نماز پڑھنے لگتا ہے۔۔۔!!!"
میرے عالم دوست جو ایسا کرتے ہیں، وہ ویسے تو کوئی مدلل جواب نہیں دیتے،
بس مسکرا کر رہ جاتے ہیں،
مگرحیرت یہ ہے کہ آئندہ ایسا کرنا بھی نہیں چھوڑتے۔
کتنی عجیب بات ہے ناں۔۔!!
وہ شیطان جو ایک سجدہ کرنے کو تیار نہ ہوا،
وہ بھلا کیوں نماز پڑھنے لگا؟
اِسی لیے تو وہ راندھا درگاہ کر دیا گیا۔ اور اگر چلیں فرضِ محال ایک منٹ کو مان بھی لیتے ہیں کہ وہ نماز پڑھتا بھی ہے تو یہ تو اچھی بات ہے،
پڑھنے دیں۔۔!!
دوستو!
ایسی کتنی ہی سینہ بہ سینہ توہمات ہمارے آباو اجداد سے چلتے چلتے ہم تک پہنچتی ہیں۔
جن میں سے کسی کو بھی تاریخ اسلام میں کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے،
لیکن افسوس ہے کہ وہ ہمارے مسلم گھرانوں میں بڑی شدت سے اپنائی جاتی ہیں۔
مثلاً۔۔!!!
٭رات کو جھاڑو نہ دو-
"گھر خالی ہو جائے گا"
٭قینچی خالی نہ چلاؤ-
"جھگڑا ہوگا"
٭خالی جھولا نہ جھلاو-
"بچہ نہیں ہوگا،یا نومولود بچے کو نقصان ہوگا"
٭جھاڑو سے نہ مارو-
"سوکھے کی بیماری ہو جائے گی"
٭چوکھٹ پر بیٹھ کر کھانا نہ کھاؤ-
"مقرض ہو جاؤ گئے"
وغیرہ وغیرہ---------!!!!!!!!
(جب کہ دین اسلام ، قران و حدیث میں ایسی توہمات کا کہی زکر نہیں ملتا)
خدا کیلئے اپنے گھروں کو دِین محمدی کی تعلیمات سے آراستہ کیجئے،
نہ کہ دقیانوسی توہمات اپنا کر خوامخواہ اپنی زندگی کو مشکل بنائے رکھو
User avatar
Papu
Moderator
Moderator
Posts: 8286
Joined: 19 Jun 2013, 5:51 pm
Been thanked: 38 times

Re: آج کی اچھی بات

Post by Papu »

آج کی اچھی بات

انسان بڑا ہی سخت جان ہے جس بات کا تصور بھی برداشت نہیں کر سکتا اور جب وہ حقیقت بن کر ٹوٹ پڑتی ہے تو چپ چاپ برداشت کر لیتا ہے
بے شک ہمارا رب بہت کریم ہیں جو جتنی بڑی آزمائش میں ڈالتا ہے اتنا بڑا حوصلہ عطا فرما دیتا ہے.یہ بھی اس کا احسان ہے
User avatar
Papu
Moderator
Moderator
Posts: 8286
Joined: 19 Jun 2013, 5:51 pm
Been thanked: 38 times

Re: آج کی اچھی بات

Post by Papu »

آج کی اچھی بات

ایک بادشاہ نے اعلان کیا کہ کہ جو شخص جھوٹ بولتے ہوئے پکڑا گیا اس کو پانچ دینار جرمانہ ہوگا، لوگ ایک دوسرے کے سامنے بھی ڈرنے لگے کہ اگر جھوٹ بولتے ہوئے پکڑے گئے تو جرمانہ نہ ہو جائے، ادھر بادشاہ اور وزیر بھیس بدل کر شہر میں گھومنے لگے، جب تھک گئے تو آرام کرنے کی غرض سے ایک تاجر کے پاس ٹھہرے، اس نے دونوں کو چائے پلائی، بادشاہ نے تاجر سے پوچھا:
"تمھاری عمر کتنی ہے؟"
تاجر نے کہا"20 سال۔"
"تمھارے پاس دولت کتنی ہے؟"
تاجر نے کہا۔۔۔"70 ہزار دینار"
بادشاہ نے پوچھا:"تمھارے بچے کتنے ہیں؟"
تاجر نے جواب دیا:"ایک"
واپس آکر انھوں نے سرکاری دفتر میں تاجر کے کوائف اور جائیداد کی پڑتال کی تو اس کے بیان سے مختلف تھی، بادشاہ نے تاجر کو دربار میں طلب کیا اور وہی تین سوالات دُھرائے۔ تاجر نے وہی جوابات دیے۔
بادشاہ نے وزیر سے کہا:
"اس پر پندرہ دینار جرمانہ عائد کر دو اور سرکاری خزانے میں جمع کرادو، کیونکہ اس نے تین جھوٹ بولے ہیں، سرکاری کاغذات میں اس کی عمر 35 سال ہے، اس کے پاس 70 ہزار دینار سے زیادہ رقم ہے، اور اس کے پانچ لڑکے ہیں۔"
تاجر نے کہا: زندگی کے 20 سال ہی نیکی اور ایمان داری سے گزرے ہیں، اسی کو میں اپنی عمر سمجھتا ہوں اور زندگی میں 70 ہزار دینار میں نے ایک مسجد کی تعمیر میں خرچ کیے ہیں، اس کو اپنی دولت سمجھتا ہوں اور چار بچے نالائق اور بد اخلاق ہیں، ایک بچہ اچھا ہے، اسی کو میں اپنا بچہ سمجھتا ہوں۔"
یہ سُن کر بادشاہ نے جرمانے کا حکم واپس لے لیا اور تاجر سے کہا:
"ہم تمھارے جواب سے خواش ہوئے ہیں، وقت وہی شمار کرنے کے لائق ہے، جو نیک کاموں میں گزر جائے، دولت وہی قابلِ اعتبار ہے جو راہِ خدا میں خرچ ہو اور اولاد وہی ہے جس کی عادتیں نیک ہوں۔
"

Who is online

Users browsing this forum: No User AvatarAhrefs [Bot], No User AvatarClaude [Bot], User avatarGoogle Adsense and 53 guests