True in life

User avatar
zameerhs
Registered Member
Registered Member
Posts: 474
Joined: 06 Feb 2015, 8:53 am
Has thanked: 21 times
Been thanked: 134 times
Contact:

True in life

#1



Post by zameerhs »

غیرت

ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﮐﯽ ﻟﮩﺮ ﺳﯽ ﺍﭨﮭﯽ ﺩﺭﺩ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ۔ ﺍﻣﯽ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﺍﺉ ﺩﯼ ﺗﻮ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺍﻓﺎﻗﮧ ﮨﻮﺍ۔ ﭘﮭﺮ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﻧﮧ ﺣﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺗﮭﺎ۔ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﺎﺭ ﺗﻮ ﺍﻟﭩﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﮨﻮ ﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﺳﺐ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺏ ﺍﺳﮯ ﺷﮏ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﭘﯿﭧ ﺑﮍﮬﺘﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﯽ۔ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﺋﯿﮯ ﺗﮭﮯ ﺑﺘﺎ ﮐﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻨﮧ ﮐﺎﻻ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﺉ ﮨﮯ۔ﯾﮧ ﺩﺭﺩ ﺍﺗﻨﺎ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺑﮯ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯼ۔ ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺍﮐﻠﻮﺗﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﮐﻠﻮﺗﯽ ﺑﮩﻦ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﻧﺎﺯ ﺍﭨﮭﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﺝ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﮔﻮﺍﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺍﻣﯽ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮨﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﭘﺮ ﺗﮍﭖ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺁﺝ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻗﺼﻮﺭ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻗﺼﻮﺭ ﺍﺱ ﺳﻮﭺ ﮐﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ﻭﮦ ﺩﺭﺩ ﺳﮯ ﺗﮍﭘﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺲ ﮐﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﺘﺎ۔ ﻇﻠﻢ ﺍﺱ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺑﮍﮪ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﺟﻮ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﮐﺮﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺋﮯ ﺗﻠﮯ ﺍﻭﻻﺩ ﺣﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﻭﮨﯽ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ۔ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺯﮨﺮ ﻣﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﮐﮭﻼ ﺩﯾﺎ۔ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺗﮍﭘﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺍﻣﯽ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﻮ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﯾﮧ ﺩﺭﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎ ﺭﮨﯽ ﺷﺎﯾﺪ ﺁﭘﮑﯽ ﺁﻏﻮﺵِ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺩﺭﺩ ﺩﻡ ﺗﻮﮌ ﺩﮮ۔ﭘﺮ ﻣﺎﮞ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺛﺮ ﻧﮧ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺳﻦ ﮐﮯ ﺁﺱ ﭘﮍﻭﺱ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﺁ ﮔﺌﮯ ﺷﺮﻡ ﮐﮯ ﻣﺎﺭﮮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮏ ﮔﺌﮯ۔ ﺷﺮﻡ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﺗﮍﭘﻨﮯ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﻋﺰﺕ ﮐﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ﺳﺐ ﮐﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﭘﺮ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮨﺎﺳﭙﭩﻞ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺑﮩﺖ ﺫﯾﺎﺩﮦ ﮐﺮﯾﭩﯿﮑﻞ ﮐﻨﮉﯾﺸﻦ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﭨﺴﭧ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ۔ﻟﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺫﺭﺍ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﯿﮟ۔ ﺁﭖ ﻟﻮﮒ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﮯ ﻟﮑﮭﮯ ﻟﮓ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺁﭖ ﻟﻮﮒ ﭘﮍﮪ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺟﺎﮨﻞ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻟﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺑﮩﺖ ﺣﺪ ﺗﮏ ﺑﮍﮪ ﭼﮑﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮯ ﺯﮨﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﻻﭘﺮﻭﺍﮨﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﺑﺮﺗﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﻮﺵ ﺍﮌ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﮔﺊ ﺗﮭﯽ۔ﯾﺎ ﺧﺪﺍ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ۔ ﺯﮨﺮ ﭘﻮﺭﮮ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻞ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﻓﻮﺭًﺍ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ ﮨﻢ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﯽ۔ﺑﺲ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﭻ ﺟﺎﺋﮯ. ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﺗﮭﯿﭩﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﺎﮞ ﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﮐﺘﻨﮯ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺗﮏ ﮔﻮﺍﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺉ ﺍﻣﯿﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﺗﮭﯽ۔ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺁﭘﺮﯾﺸﻦ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺯﯼ ﮨﺎﺭ ﮔﺌﯽ ﻭﮦ ﻧﺎﮐﺮﺩﮦ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﭘﺎ ﮐﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﮔﺊ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻋﻤﺮ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﺩﮮ ﮔﺊ۔😞😞😞
اپنے دل سے نکالو تو مانوں،،

یوں چھوڑ جانا تو کوئی کمال نہیں۔۔۔۔
User avatar
zameerhs
Registered Member
Registered Member
Posts: 474
Joined: 06 Feb 2015, 8:53 am
Has thanked: 21 times
Been thanked: 134 times
Contact:

Re: True in life

#2



Post by zameerhs »

ایک خاتون ایک مولوی صاحب کے پاس گئیں، "مولوی صاحب، کوئی ایسا تعویز لکھ دیں کہ میرے بچے رات کو بھوک سے نہ رویا کریں۔"
مولوی صاحب نے تعویذ لکھ دیا۔
اگلے ھی روز کسی نے روپوں سے بھرا تھیلا اُن کے صحن میں پھینک دیا۔
خاتون کے شوھر نے ایک دوکان کرائے پر لے لی۔ کاروبار میں برکت ھوئی اور دوکانیں بڑھتی گئیں اور پیسے کی ریل پیل ھو گئی۔
ایک دن خاتون کی نظر اُس پرانے صندوق پر پڑی جس میں انہوں نے تعویذ کو محفوظ رکھا تھا۔
"جانے مولوی صاحب نے تعویذ میں کیا لکھا تھا؟" تجسّس میں اس نے تعویذ کھول ڈالا۔
لکھا تھا، "جب پیسے کی ریل پیل ھو جائے تو سارا پیسہ تجوری میں چھپانے کی بجائے کچھ ایسے گھروں میں ڈال دینا جہاں رات کو بچوں کے رونے کی آواز آتی ھو۔"
اپنے دل سے نکالو تو مانوں،،

یوں چھوڑ جانا تو کوئی کمال نہیں۔۔۔۔
User avatar
zameerhs
Registered Member
Registered Member
Posts: 474
Joined: 06 Feb 2015, 8:53 am
Has thanked: 21 times
Been thanked: 134 times
Contact:

Re: True in life

#3



Post by zameerhs »

FB_IMG_1544019207882.jpg
اپنے دل سے نکالو تو مانوں،،

یوں چھوڑ جانا تو کوئی کمال نہیں۔۔۔۔
User avatar
zameerhs
Registered Member
Registered Member
Posts: 474
Joined: 06 Feb 2015, 8:53 am
Has thanked: 21 times
Been thanked: 134 times
Contact:

Re: True in life

#4



Post by zameerhs »

IMG-20181129-WA0007.jpg
اپنے دل سے نکالو تو مانوں،،

یوں چھوڑ جانا تو کوئی کمال نہیں۔۔۔۔
User avatar
zameerhs
Registered Member
Registered Member
Posts: 474
Joined: 06 Feb 2015, 8:53 am
Has thanked: 21 times
Been thanked: 134 times
Contact:

Re: True in life

#5



Post by zameerhs »

Ye daulat bhi le lo, ye shohrat bhi le lo
bhale cheen lo mujhse meri jawani
magar mujhko lauta do bachpan ka sawan
wo kaghaz ki kashti, wo barish ka pani

Muhalle ki sabse nishani purani
wo burhiya jise bachche kehte the nani
wo nani ki baaton main pariyon ka Dera
wo chehre ki jhuriyon main sadiyon ka phera
bhulaye nahi bhool sakta hai koi
wo choti si raten wo lambi kahani

Kari dhoop main apne ghar se nikalna
wo chiriya wo bul bul wo titali pakarna
wo guriya ki shadi main larna jhagarna
wo jhuloon se girna wo gir ke sambhalna
wo peetal ke challon ke pyare se tohfe
wo tuti hui churiyon ki nishani

Kabhi rait ke oonche teelon pe jana
gharonde banana banake mitana
wo masoom chahat ki tasweer apni
wo Khawabon khiyalon ki jagir apni
na duniya ka Gham tha na rishton ke bandhan
bari khubsurat thi wo zindagani
اپنے دل سے نکالو تو مانوں،،

یوں چھوڑ جانا تو کوئی کمال نہیں۔۔۔۔
User avatar
zameerhs
Registered Member
Registered Member
Posts: 474
Joined: 06 Feb 2015, 8:53 am
Has thanked: 21 times
Been thanked: 134 times
Contact:

Re: True in life

#6



Post by zameerhs »

ﻭﮦ ﺻﺒﺢ، ﺩﻭﭘﮩﺮ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﻣﯿﺴﺞ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ۔۔ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔۔ ﺟﺐ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺘﺎ ﮐﮧ ﮨﺎﮞ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﮨﮯ۔۔ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﭘﮭﺮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻢ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﺮ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﺴﺞ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﻟﯿﮟ۔۔۔ ﻧﮧ ﭘﯿﺎ ﺗﻮ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮ ﺟﺎﺅﮞ ﮔﯽ۔ ﺍﻑ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮﻧﺎ۔۔۔ ﺑﮩﺖ ﺳﺨﺖ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﭘﯿﻨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ، ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ، ﻣﻮﺑﺎﺋﯿﻞ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﻨﺎ۔۔ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺮﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﻟﯿﭩﮯ ﺭﮨﻨﺎ۔۔ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻨﭩﮧ ﮐﺎﻝ ﭘﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺳﻮﺭﯼ ﻧﮧ ﺑﻮﻟﻮﮞ۔۔۔ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﺎﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﺑﺎﺭﮦ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﺘﺎ۔۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺗﻨﯽ ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﮨﻮﺗﯽ ﮐﮧ ﻧﯿﻨﺪ ﺁﺟﺎﺗﯽ۔۔ ﺍﺱ ﮐﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﺱ ﮐﻮﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ ﮐﮧ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺻﺒﺢ ﻧﮑﻠﻮﮞ، ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮔﺰﺭﻭﮞ، ﯾﺎ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﻭﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﮭﭗ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺘﯽ۔۔۔
ﻣﮕﺮ ﺍﺏ۔۔۔ ﻧﮧ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔۔ ﻧﮧ ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔۔ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﮐﺴﯽ ﻭﻗﺖ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﯿﺴﺞ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮐﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﺅ۔۔ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﺏ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺩﻭ ﮔﻼﺱ ﭘﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔۔۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﯿﺴﺞ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮐﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﻟﯿﮟ۔۔۔۔
ﻭﮦ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ۔۔ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﺎ ﻧﺎ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔۔۔ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻭﻗﺖ ﭘﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔۔ ﻭﮦ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻧﺎﺭﺍﺽ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔۔۔
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ '' ﺗﮭﺎ '' ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﮑﻤﻞ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﮯ۔۔۔۔
ﭼﮭﻮﮌ ﮔﯿﺎ
اپنے دل سے نکالو تو مانوں،،

یوں چھوڑ جانا تو کوئی کمال نہیں۔۔۔۔
User avatar
zameerhs
Registered Member
Registered Member
Posts: 474
Joined: 06 Feb 2015, 8:53 am
Has thanked: 21 times
Been thanked: 134 times
Contact:

Re: True in life

#7



Post by zameerhs »

عورت، عاشق اور مُلا
.
گاؤں کی عورتیں اور مرد پہاڑی کے قریب اپنے سرسبز کھیتوں میں کام کر رہے تھے کہ دور سے بہار کی تیز بہار ہوا کو چیرتا ہوا ایک نوجوان ان کی طرف دوڑتا آتا دکھائی دیا اور گاؤں والوں کو آکر بتایا فاریہ سِمنانی کا وہ پاگل عاشق جو پہاڑی پر بیٹھ کر فاریہ کی مدح میں حافظ شیرازی (رح) کے اشعار پڑھا کرتا تھا، نے آج سِمنان- کہ جہاں فاریہ سِمنانی نے اپنا بچپنا گذارا تھا، جانے کا فیصلہ کیا ہے. یہ سن کر سب لوگ خداحافظی کیلئے گاؤں کے دروازے پر جمع ہوئے اور انہوں نے عاشق سے التجا کی کہ نہ جائے مگر وہ نہ مانا، اسے فاریہ کے بچپن سے مربوط ہر وہ جگہ دیکھنی تھی جہاں فاریہ کے قدموں کے نشان پڑے تھے. آخر گاؤں والوں نے اس سے کہا: اے عاشق ہم سب سنی مسلک کے ہیں لیکن ہم نے تمہیں ہمیشہ ایک نیک دل انسان پایا، بیشک تم شیعہ ہو مگر ہمیں کچھ اچھی باتیں اپنی یادگار کہ طور پر دے جاؤ. اس عاشق نے نیم کے ھرے بھرے درخت کے تنے پر ٹیک لگائی، تھوڑی دیر چپ رہا اور کہا " اللہ (ج) نے کسی کو سنی یا شیعہ نہیں بنایا ہم سب انسان پیدا ہوئے تھے. تم میرے اپنے ہو... میری گمشدہ فاریہ سمنانی تمہیں ملے تو اسے کہنا میں سِمنان میں ہوں..." عاشق کی یہ بات سن کر اس مجمعے سے ایک باریش مُلا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا:" اس عورت کے عشق میں گرفتار مجنوں سے عقل و خرد کی باتوں کی کیسی امید، عورت کے عاشق کی عقل بھی عورت جیسی..."
.
یہ سن کر عاشق کے چہرے کا رنگ لال ہوگیا، یہ طیور گاؤں والوں نے پہلی بار مشاہدہ کیئے تھے سو سب اس ھیبت کی وجہ سے چپ ہوگئے، جب خاموشی چھاگئی تو عاشق نے بولنا شروع کیا.
"کاش تمہاری کانوں نے اللہ (ج) کے کلام کو سنا ہوتا تو تمہیں پتہ چلتا کہ *اللہ (ج) کے پاس جسموں کی کوئی قدر و قیمت نہیں، یہ خاکی بدن کہ جس میں مرد و عورت الگ الگ ہیں اس بدن کی کوئی اہمیت نہیں، اہمیت ہے تو روح کی ہے اور روح میں عورت مرد کا کوئی فرق نہیں*، روح جیسی تمہارے اندر پھونکی گئی اسی طرح عورت کے اندر، "الروح من امر ربی" کا مصداق فقط تمہارا روح نہیں عورت کا روح بھی ہے! فرق جسمانیت کا ہے تم جسم دیکھتے ہو اس لیئے عورت تمہیں کمزور و ناتواں و نازک نظر آتی ہے مگر اللہ (ج) روح دیکھتا ہے، سارا کام روح کا ہے جسم اس کا ایک غلام ہے اگر اللہ (ج) نے عورت کو مرد سے کم درجے کا بنانا ہوتا تو جسم کی مانند روح میں بھی فرق رکھتا مگر نہیں روح کے لحاظ سے مرد و عورت کے یکساں ہیں."
.
ملا کے خلیفے نے آواز دی "اے جاہل مجنوں! کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا اللہ (ج) فرماتا ہے الرجال قوامون علی النساء، مرد عورت پر حاکم ہے."
عاشق نے کہا:"اگر بقول تمہارے قرآن میں عادل اللہ (ج) مرد کو جنس کی بنیاد پر عورت سے افضل کہتا ہے تو کیا تم مریم و حاجرہ و خدیجہ و فاطمہ سے افضل ہو؟ ھرگز نہیں! تم نے اس آیت میں مرد کی معاشی سرپرستی کے مفہوم کو مرد کی عورت پر فوقیت و فضیلت سمجھ لیا یہ تمہاری مردانہ تفسیر ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں."
.
پھر اس عاشق نے اپنی جیب سے ایک پھول نکالا سامنے کھڑی ایک پانچ سالا بچی کے بالوں میں وہ پھول لگا کر کہا:" گاؤں والو! *عورت کی زندگی مرد پر احسان کے سوا کچھ نہیں اور مرد کی زندگی عورت سے احسان فراموشی کے سوا کچھ نہیں...*"
یہ کہہ کر عاشق چپ ہو گیا.
.
ایک جوان لڑکی نے آواز دی "اے عاشق! ہمیں اس کی تفصیل بتاؤ کیونکہ ہم اشاروں میں باتیں سمجھنے پر قادر نہیں."
عاشق نے ھرے بھرے کھیتوں سے آنے والی باد بہار کی طرف چہرا پھیر دیا، ٹھنڈی سانس لی اور کہا " احسان یعنی حق سے زیادہ عطا کرنا، مرد کا عورت پر حق نہیں کہ وہ اس کے لیئے گھر بار کا کام کرے اور اس کے بچے پالے لیکن پھر بھی عورت یہ کام کرتی ہےیہ اس کا احسان ہے اور مرد اس احسان کو عورت کا فریضہ سمجھ کر اس کی احسان فراموشی کرتا ہے، عورت مریم (س) کی صورت میں تکالیف برداشت کر کے عیسی (ع) کو پالتی ہے کہ مرد ہدایت پائیں، اور اسی قبیلے کے مرد اس احسان کے بدلے اس پر بدکاری کا الزام لگاتے ہیں، عورت راتوں کو جاگ کر مرد کے نطفے کو عظیم انسان بناتی ہے اور مرد سکون بھری نیند سوتے ہیں اور خواب میں جنت کی حوریں دیکھتے ہیں، عورت درد حمل کی تکلیف میں مبتلا ہوتی ہے اور مرد کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں بیٹی نہ پیدا ہوجائے، عورت بچے کے ولادت کی ساری تکالیف برداشت کرتی ہے مرد اس کے ساتھ اپنا نام لگا کر اسے خود سے منسوب کردیتا ہے..."
.
عاشق کی بات جاری ہی تھی کہ گاؤں کے مُلاں نے ایک اور قہقہہ لگایا اور کہا:" تم بڑے مفسر ہو مجنوں! ذرا بتاؤ مرد کو قرآن نے کیوں اجازت دی ہے کہ وہ عورت کو مارے؟ *اتنا مارے کہ ہڈی نہ ٹوٹے لیکن بیشک مارے،* کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی... فَعِظُوهُنَّ وَ اهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ وَ اضْرِبُوهُن...َّ؟؟؟"
اس بار عاشق نے اس کی طرف نگاہ نہ کی اور ٹکٹکی باندہ کر انہیں ہرے بھرے کھیتوں کی جانب دیکھتا رہا پھر اپنا منہ گاؤں والوں کی طرف پھیر کر کہا:"میرے عزیزو! کیا میں تم میں سے بوڑھی ترین عورت کو ایک غلطی کرنے پر اپنے رومال یا دانت صاف کرنے والے مسواک سے ماروں تو کیا تم اسے مارنا کہوگے یا دکھاوا؟"
گاؤں والے بولے: "اسے بھلا کوئی کیوں مارنا کہے گا." .
عاشق نے کہا " تو بس! قرآن نے عورت کی غلطیوں پر مرد کو حکم دیا کہ وہ اسے نصیحت کرے، عورت نہ مانے تو بستر جدا کرے اور پھر بھی نہ مانے تو اپنا رومال لپیٹ کر یا مسواک سے اس طرح مارے کہ اس کے جسم پر نشان تک نہ پڑے، کیا اسے سزا کہو گے یا اظہار ناراضگی، کیا اس بات سے تمہیں عورت سے نفرت کی بو آتی کے یا ملا کی بات سے؟"
.
ایک عورت جس کی گود میں بچہ تھا بولی " اے عاشق! اللہ (ج) نے جنت میں مردوں کو حوریں دینے کا وعدہ کیا ہے لیکن عورت کو کچھ نہیں کیا یہ عدل ہے؟" یہ بات سن کر عاشق مسکرایا اور مُلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:"بہتر ہوگا اس کا جواب یہ مولانا دیں" ملا مزید پریشان ہوگیا اور چپ ہوگیا. پھر اس عورت نے یہی سوال عاشق سے پوچھا، عاشق نے کہا:" عربی میں حورا خوبصورت سیاہ آنکھوں والی عورت کو کہا جاتا ہے اور اھور بڑی آنکھوں والے خوبصورت مرد کو، قرآن میں لفظ حور جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے، یہ لفظ حورا کا بھی جمع ہے اور اھور کا بھی... سو اللہ (ج) نے نے ایک لفظ "حور" میں ایسی کرامت رکھ دی کہ اس کی تلاوت عورت کرے تو اسے اھور ملنے کی بشارت کے طورپر اور مرد پڑھے تو اسے جنت میں حوراء کی بشارت کے طور پر "
.
پھر عاشق اٹھا اور کہا:" لوگو! عورت سے محبت کرو، اس کی قدر کرو، وہ تم سے کچھ نہیں چاہتی سوائے احترام و محبت کے، رسول (ص) کو پسند ہے عورت، علی (ع) فاطمہ (س) کے ساتھ گھر کام کرتے تھے... تم میں اور ملا میں فرق ہونا چاہیئے اس نے اسلام کو عورت کی دشمنی کا چشمہ لگا کر دیکھا ہے، اس لیئے اسے پورا دین عورت کے خلاف نظر اتا ہے مگر میں نے فاریہ سِمنانی کے عشق کا چشمہ لگا کر اس دین کو دیکھا ہے، اب یہ تم ہی سوچو مجھے عورت کے عشق نے ھدایت دی کے یا اس مولوی کو عورت کی نفرت نے؟"
.
یہ کہہ کر اس نے اپنی گٹھڑی اٹھائی اور جانے لگا، سب گاؤں والے تھوڑے سے فاصلے تک اس کے پیچھے پیچھے چلے، پھر سب نم آنکھوں سے اسے دیکھتے رہے اور وہ کچھ دیر بعد پھاڑوں کی اوٹ میں ان ھرے بھرے کھیتوں میں گم ہوگیا.
اپنے دل سے نکالو تو مانوں،،

یوں چھوڑ جانا تو کوئی کمال نہیں۔۔۔۔
User avatar
zameerhs
Registered Member
Registered Member
Posts: 474
Joined: 06 Feb 2015, 8:53 am
Has thanked: 21 times
Been thanked: 134 times
Contact:

Re: True in life

#8



Post by zameerhs »

ایک بہترین تحریر

شروع سے آخر تک پڑھیں اور آپنے بچوں کو پڑھائیں
دل کی کیفیت بدل جائیگی

*** عجیب و غریب واقعہ ***

ﺟﺐ میں ﺍﭘﻨﮯ استاد ( شیخ ) ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ ‘
ﻣﯿﮟ ﺑﺤﺮﯼ ﺟﮩﺎﺯﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮈﻧﮓ ﺍﻥ ﻟﻮﮈﻧﮓ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘
ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﺩﻥ ﮐﯽ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺘﻨﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﮐﻤﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺩﻭ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺭﻗﻢ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﻗﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﺣﮑﻤﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ ‘
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﮯ ‘ ﺗﻢ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻭ ‘ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ ‘
ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﻣﺎﮦ ﻟﻮﮈﻧﮓ ﺍﻥ ﻟﻮﮈﻧﮓ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ‘ ﻣﯿﺮﺍ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﻣﮑﻤﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ”
ﺗﻢ ﺁﺝ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﺟﺎﺅ ‘ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺟﮭﻮﭦ ﻣﻮﭦ ﮐﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﭘﮍ ﺟﺎﻧﺎ ‘ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﮐﺎﻡ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﻟﮕﺎﻧﺎ ‘ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﻟﯿﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺟﺎﻧﺎ “
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺷﯿﺦ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ ‘ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﭘﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺩ ﮐﺎ ﺑﮩﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﮔﻮﺩﯼ ﭘﺮﻟﯿﭩﺎ ﺭﮨﺎ ‘ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻭﺿﮧ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺁ ﮔﯿﺎ ‘ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ‘ ﺗﻢ ﺍﺏ ﺩﻭ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﻗﻢ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﮐﺮ ﺩﻭ ‘
ﺁﭖ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮﯾﮟ ﻭﮦ ﮔﯿﺎﺭﮦ ﻣﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻼ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﻣﯿﺮﺍﺩﻝ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ‘
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺧﻮﺏ ﺳﯿﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺧﺘﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ‘
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﮐﻨﮉﯼ ﻟﮕﺎﺋﯽ ‘ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﺳﻮﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﮑﻤﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ‘
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ ﺑﻮ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻧﻤﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﻟﺬﺕ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ‘
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺷﯿﺦ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﮐﯿﻔﯿﺎﺕ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ‘
ﻭﮦ ﮨﻨﺲ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﮯ ‘ ﺑﯿﭩﺎ ﯾﮧ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺎ ﮐﻤﺎﻝ ﮨﮯ ‘ ﺣﺮﺍﻡ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻮﮨﺮ ﺍﮌﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ‘ ﺁﭖ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‘
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ‘ ﺟﻼﻝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﺑﮍﮬﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ‘ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ‘ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﻮ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ‘ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺗﻨﮓ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ‘ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺳﻮﭺ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ‘ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﻮ ﭘﮭﯿﻼ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺭﻭﺡ ﺳﮯ ﺳﮑﻮﻥ ﮐﮭﯿﻨﭻ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ‘
ﻣﯿﺮﮮ شیخ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ‘ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺁﺝ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺣﺮﺍﻡ 40 ﺩﻥ ﺳﺘﺎﺋﮯ ﮔﺎ ‘
ﺁﭖ ﺍﻥ 40 ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻮﭦ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﺋﻞ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ‘
ﺁﭖ ﻏﯿﺒﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ‘
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻻﻟﭻ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ‘
ﺁﭖ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ
ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻣﯿﺮ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﯽ ‘
ﻣﯿﮟ ﮈﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ‘
ﻣﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺑﺮﮮ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ ‘
ﻭﮦ ﺑﻮﻟﮯ ” ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﻮ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭ ‘ ﯾﮧ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﭘﺎﮎ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ “
پھر ﺍﻧﮩﻮﮞ ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ ‘
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ریاضت (قربانیوں سے بھر پور تجربہ، سخت جان فشانی) ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﻮ ﺳﯿﮑﮭﺎ ‘ ﻭﮦ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ‘ ﯾﮧ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﺍﯾﮏ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮨﮯ ‘ ﺍﺱ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﭘﺮ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﮐﺎ ﻣﻮﭨﺎ ﺗﺎﻻ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ ‘ ﯾﮧ ﺗﺎﻻ ﺍﯾﮏ ﺍﺳﻢ ﺍﻋﻈﻢ ﺳﮯ ﮐﮭﻠﺘﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﺳﻢ ﺍﻋﻈﻢ ﮨﮯ " ﺣﻼﻝ " ﺁﭖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺣﻼﻝ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﺟﺎﺅ ﮐﺎﺋﻨﺎﺕ ﮐﺎ ﺻﻨﺪﻭﻕ ﮐﮭﻠﺘﺎ ﭼﻼ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ “
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ” ﺍﻭﺭ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﯽ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ “
ﻭﮦ ﺑﻮﻟﮯ ” ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮨﺮ ﻭﮦ ﭼﯿﺰ ﺟﺴﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ‘ ﺳﻨﻨﮯ ‘ ﭼﮑﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻻﻟﭻ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﺣﺮﺍﻡ ﮨﮯ ‘
ﺁﭖ ﺍﺱ ﺣﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﺑﭽﻮ ‘
ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﮐﻮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﺑﻨﺎ ﺩﮮ ﮔﺎ‘
ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺍﺟﺎﮌ ﺩﮮ ﮔﺎ
تباہ کردیگا ‘ ﯾﮧ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺟﻮﮨﺮ ﮐﺮ ﺩﮮ ﮔﺎ
بے قیمت کردے گا اپنے گھر میں اپنے پڑوس میں اور پوری دنیا میں
پھر معاشرے میں آپ کی کوئی اہمیت ہی نہ رہیگی،
اور آپ کے چہرے کی رونق ختم ہوجائیگی........!!

(انمول لوگ ، انمول احساس)
اپنے دل سے نکالو تو مانوں،،

یوں چھوڑ جانا تو کوئی کمال نہیں۔۔۔۔
Post Reply Previous topicNext topic

Who is online

Users browsing this forum: User avatarGoogle, User avatarYandex and 180 guests